- 1
- 2
- 3
- 4
اسپیشل سروسز
نور بصیرت
عرض ناشر
ایک طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر شگفتہ نقوی کی نئی کتاب کے ساتھ حاضر ہیں ۔ اس کتاب ’’بہشت کا راستہ ‘‘کی، تحریر سے اشاعت تک ،جتنی تاخیر ہوئی ہے ،یقیناً اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت و وقعت اور تحریر کے تنوع میں اضافہ ہوا ہے ۔اگرچہ ڈاکٹر شگفتہ نقوی کی تمام کتابیں لاجواب،جذبہ انگیز اورزبردست افادیت کی حامل ہیں لیکن ہمارے خیال میں اپنے میٹرکے اعتبار سے یہ کتاب ڈاکٹر صاحبہ کی تمام کتابوں سے آگے نکل گئی ہے ۔ اس کتاب کی تیاری کے دوران میں ہمیں قارئین کی طرف سے ملاقاتوں،خطوط اور ٹیلی فونز کے ذریعے جس قدر یاد دہانیاں ہوئی ہیں ، جتنے زیادہ آرڈرز آئے ہیں ،یہ ہمارے لئے ایک حیرت انگیز تجربہ ہے ۔ الحمد للہ ڈاکٹر صاحبہ ایک مشنری جذبے سے لکھتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور ہم اسی جذبے کے تحت ان تحریروںکی اشاعت کا فرض نبھاتے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ قارئین کرام اس کتا ب کو اپنے تما م عزیز و اقارب ،اور دوست احباب تک پہنچانے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔
عباس اختر اعوان
قارئین کے نام
’’بہشت کاراستہ‘‘
آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔الحمدللہ
میرایہ ناول لکھنے کاکوئی باقاعدہ پروگرام یاارادہ نہ تھا ،یونہی ایک دن بیٹھے بیٹھے مرد اورعور ت کے ازلی رشتے کے بارے میں سوچتے ہوئے چند سطریں لکھیں اور پھر بھول گئی۔
کافی دنوں بعداس کاپی پرنظرپڑی تووہ اس قدر خوبصورت تحریرتھی کہ اس سے نظر یں چرانا مشکل ہوگیا۔ یہ تعلق خاندان کی بنیاد بنتا ہے اور خاندانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اسی سے قومیں وجود میں آتی ہیں ۔اگراس بنیادی یونٹ میں خرابی نہ ہو یااس کی اصلاح ہوجائے۔ تواچھائی اورسکون کوبڑے کینوس میں پھیلایاجاسکتا ہے۔ یہی اس کابنیادی مقصد ہے۔
دنیا میں اگر اس راستے پرچلا جائے توزندگی جنت بن سکتی ہے اوریہی نیک عمل بہشت کی ضمانت بنتا ہے۔ اس کانام بھی اس ابتدائی تحریر سے لے لیا۔ پھرکیاہواکہ میری ہر آنے والی کتاب کے بیک پیج پراس کانام شائع ہوتا ہے۔ اس کومکمل کرنے کے ارادے اوروعدوں کے باوجود مریضوں نے فرصت نہ دی۔
2007ء میں آسٹریلیا آناپڑا، یہاں فرصت تو میسرآگئی۔لیکن ماحول، دوست،گھر ،آب وہوا، معاشرت، نظارے، ساتھی، سبھی کچھ نیا تھا۔ اس ماحول سے مانوس ہونے میں چھ ماہ لگ گئے۔
عباس اختر صاحب کی طر ف سے مسلسل یاد دہانی آتی رہی کہ آپ’’بہشت کاراستہ‘‘ کب بھجوا رہی ہیں۔
آج پھران کی ای میل پڑھی ،لکھاتھا ۔لوگ آپ کی اس آنے والی کتاب کے منتظر ہیں اوربہت پوچھتے ہیں کیاجواب دوں۔ ۔ ۔ ؟یہ کتاب لکھوانے کاان کا بہت ہی غیرمحسوس طریقہ تھا۔ میں نے اللہ پاک سے خصوصی دعا کی کہ میری مددفرما۔
پھران کافون آیااورانہوں نے تجویز دی کہ اگر یہ ناول قسط وار شائع کرنا شروع کردیں ’’تواگلے ماہ لامحالہ‘‘ آپ کواگلی قسط تحریرکرناہوگی۔ یہ طریقہ کارگرثابت ہوا۔ اقساط جنوری سے لے کرجولائی تک شائع ہوئیں توپھرانہوں نے کہاکہ اب ایک دوماہ ناول ہی کتابی صورت میں آجائیگا۔چنانچہ گیارہ نومبر2009ء یہ مکمل ہوگیا۔ اب یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میںہے۔ میں نے اس سے پہلے اتناطویل باقاعدہ ناول کوئی نہیں لکھا۔ سفرنامے،کہانیاں، افسانے ، مضامین لکھے تھے جنہیں آپ نے سندقبولیت عطاکی۔ میں آپ کی محبتوں کی مقروض ہوں اورمیری دعائوں میں آپ حصہ دار ہیں۔ اس ناول میں آپ کو جابجااشعار بھی دکھائی دینگے۔ شعر کہنے اور شعر ہونے میں بہت فرق ہے۔ میں نے قصداً کبھی شاعری نہیں کی ۔پہلاشعر کہاتو میں آٹھویں کلاس میں تھی اورشاعری کے مفہوم سے ناآشنا۔ ۔ ۔ بس قافیہ ردیف کی ظاہری خوبصورتی دل کولبھاتی، اورردھم اورموسیقی بھی اس کی وجہ تھی۔ مفہوم تک رسائی نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ذہن وفکر کے دریچے واہوتے گئے اورجب شعرکی باطنی خوبیوں کاادراک ہواتو قلم مزید رواں ہوگیا۔ نہ کبھی سنانے کی خواہش نے مجھے ستایا، نہ اسے شائع کرنے کی آرزودِل میں پیداہوئی۔ میری شاعری میری ذات کاوہ حصہ ہے جس پر زندگی کاکرب اوراسکی حقیقتیں پل پل عیاں ہوتی ہیں۔ یہ میری رازداربھی ہے اوردوست بھی۔ اس نے میرے دکھ بانٹے ۔جوذاتی بھی تھے اورآفاقی بھی۔ میرے غموں کوگلے سے لگایا۔ زندگی کی تلخیوں کواپنے دامن میں سموکر مجھے شعور کی پختگی،مشاہدے کی آنکھ اورتجربے کی قدروقیمت سے روشناس کرایا۔
میری شخصیت کی تکمیل کی۔ میرے خیالات ،جذبات، احساسات، مشاہدات اور تجربات کوآگہی کے سانچے میں ڈھال کر مجھے جینے کاسلیقہ سکھایا۔
نثرتومیں نے بہت بعد میںلکھناشروع کیا۔
کب لکھنے کاشو ق تھا، مجھ کوکب مجھے لکھناآتاہے
میرے اندر شخص ہے کوئی جومجھ سے لکھواتاہے
حساس دل رکھنے والے ایک ٹھوکر سے ایک جہاں نوپیداکرتے ہیں جبکہ غافل کواس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
کسی انسان سے آپ کی دوستی کتنی ہی مضبوط اورطویل ہولیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور آتی ہیں۔ لیکن میری شاعری میری ایسی دوست ہے جس نے میراساتھ دیا۔ میرے درد کی پاسداری کی۔ میں نے لکھنے کے بعد ہمیشہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ تازہ دم اورشاداب محسوس کیا۔ جیسے لکھنامیری روح کیلئے آکسیجن ہو۔
بحیثیت ایک مسیحا کے میری گفتگو کو میرے مریضوں کیلئے پراثربنانے میں میری نظم اورنثردونوں نے اہم کردار اداکیا۔ اورمیں نے یہ جانا کہ جسم کی بیماریوں کے علاج کیلئے دواسے پہلے اگر روح کے زخموں کوسن لیاجائے اوراپنی میٹھی اورپراثر سچی گفتگو سے ان پرمرہم رکھاجائے توجسم کی شفاء یقینی اورجلدی حاصل ہوجاتی ہے۔
اس طرح میراقلم، میری تحریر، میری شاعری اورنثرسب نے میری طبی زندگی میں میری معاونت کی۔ دست گیری کی اورمجھے عجز سے روشناس کرایا۔
میرا واسطہ ’’حواکی بیٹی‘‘ سے زیادہ رہا۔اوراس Male Dominated societyمیں وہ کیاکرتی ہے
اوراس کے ساتھ کیاہوتا ہے، اس کی واضح اوراصلی تصویر مجھے نظرآئی اورمیرے علم، تجربے اورمشاہدے میں اضافہ ہوا۔ یوں توہر ڈاکٹر کویہ مواقع ضرورمیسر آتے ہیں لیکن اگراندر کی آنکھ کھل جائے توپھریہ علم، بصیرت، حکمت ،ہدایت اورکبھی کبھی الہام کادرجہ اختیار کرلیتاہے۔ انسان تکلیف ،دکھ،بیماری اورموت کو سامنے دیکھ کر سچ بولتا ہے۔ اس طرح میری شاعری اورنثر دونوں تخیلاتی نہیں ہیں۔ جیسے مصور کی آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے ،برش اسے تصویر کی صورت میں ڈھال دیتا ہے۔ میر ی آنکھ نے جودیکھا۔ ۔ ۔ میرے کانوں نے جوسنا۔ ۔ ۔ میرے ہاتھوں سے جوگزرا۔ ۔ ۔ زندگی نے میرے ہاتھوں میں پہلاسانس لیا ۔اس کو جنم دینے والی ماں سے پہلے زندگی میرے ہاتھ میں آتی ہے اورکئی دفعہ آخری سانس بھی میرے ہی ہاتھ میں۔ ۔ ۔ اس ابتدا اورانتہا کو اتنے قریب سے مشاہدے کی آنکھ سے دیکھنے والے کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس کاایمان پختہ، فناپریقین اوراس کامل واکمل پرتوکل اس کی ذات کاحصہ بن جاتاہے۔اس پرلکھنا بذات خود نہایت مشکل کام ہے۔میں طبعاً مشکل پسند ہوں۔ مجھے پہاڑ پرچڑھنے کیلئے سب سے مشکل راستے کاانتخاب کرنا اچھالگتا ہے۔ پھرراستے کی مشکلات کوانگیز کرنا میرے شوق کیلئے مہمیز بن جاتا ہے۔ سب سے مشکل اپریشن جودوسرے چھوڑ دیتے ہیں، وہ میں کرنے کی ٹھان لیتی ہوں۔ جب آپ آبلہ پامنزل پرپہنچتے ہیں تومنزل آپ کے لیے خوشی، تسکین ،کامیابی اورباریابی کے بازوواکر دیتی ہے ۔یہ رشتہ بندے اورخداکے درمیان ہوتاہے۔ میں نے اللہ کی بیمار، دکھی ،مجبور،خستہ حال مخلوق کے درمیان رہ کر باری تعالیٰ کوپایا، محسوس کیا، مکالمہ کیا، بس جس نے اسے تلاش کرنا ہے، حاصل کرنا ہے، وہ اس کے بندوں سے رابطہ نہ توڑے۔ بارہا ایساہواکہ اپریشن کے دوران پیچیدہ اورخطرناک صورت حال پیداہوگئی۔ ظاہری اسباب منقطع نظر آئے
۔خون کاانتظام نہیں ہوسکتا تومیرے دل کی پکار یہ تھی۔ ۔ ۔ رب دوعالم! اب آپ کے سواایسا کون ہے جو میری مدد کرے۔ ۔ ۔ میں نے جب بھی اسے خلوص سے پکارا تو اگلے ہی لمحے اس کی رحمت آگئی۔
بات طویل ہوگئی۔انشاء اللہ اپنے یہ تجربات (زندگی نے مہلت دی اوراللہ کی رضاہوئی تو)کسی آئندہ کتاب میں لکھوںگی۔
کہانی کے بارے میں کچھ نہیں بتائوں گی، اس کارزار میں آپ اکیلے ہی تشریف لے جائیں۔ اس میں جو چیز آپ کوپسند آئے، یاقابل عمل دکھائی دے، وہ توذات باری کی عطاہے۔ اور جوکمی، خامی، کجی یاجھول ہو،وہ میری کم علمی اورکوتاہی ہے۔پڑھنے کے بعداپنی رائے سے مزیدآگاہ کیجئے گا۔
آپ کے تبصرے ،تنقید، تائید اور مشوروں کاانتظار رہے گا۔
جلد ہی اس کاانگلش ترجمہ آسٹریلیا سے شائع کرنے کاارادہ ہے۔
میری تمام کتابیں آپ ویب سائیٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔
آپ سب کی ڈاکٹر شگفتہ نقوی
10الیگزینڈرایونیو،کوبرگ نارتھ وکٹوریا
drnaqvi@yahoo.com
http://www.naqvi.com.au
القدس یونان کا بہترین تفریحی جہاز جزیرہ بہت خوبصورت تھا۔ بڑے بڑے پرانے اورگھنے درخت، بہتے ہوئے جھرنے، بوٹے اور جھاڑیاں، پھولوں اور پھلوں کے درخت، اونچی نیچی پہاڑیاں۔ ۔ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانی قدموں کے لمس سے یہ زمین ناآشنا ہے۔ ایسے ایسے پتے اوربیلیں جوعام زندگی میں کبھی نظرنہ آئیں،خاموشی ایسی کہ بس جھرنا بہنے کی آواز یاکبھی کبھار کوئی پرندہ۔ ۔ ۔ اسکے اڑنے کی آواز سنائی دے۔ لیکن مراد تواس جزیرے پریوں پہنچا تھاکہ اسکا جہاز طوفان کی نذرہوگیاتھا۔لکڑی کے ایک تختے پرایک دن تیرتا ہوا زمین کے اس ٹکڑے پرآگیا۔ اسے یقین ہی نہ آیاکہ ایسا زبردست طوفان بھی ہو سکتا ہے ۔ ایک ایک لہر بیس بیس، تیس تیس فٹ بلند ہوگی۔ لیکن طوفان۔ ۔ ۔ کیسا بھیانک تھا، الٰہی میری توبہ! وہ کیسے بچ گیا۔ ۔ ۔ اس کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ یونان کابہترین تفریحی جہاز القدس ،جواپنی مضبوطی، آرام، خوبصورتی، چابکدست عملے اورکیپٹن کی وجہ سے عالمگیر شہرت کاحامل تھا۔ جونہی اسکاتختہ جزیرے کے ساحل کے قریب پہنچا،اس نے آخری بار ہمت کرکے چھلانگ لگادی۔کتنی ہی دیر بے حس وحرکت گھاس پرپڑا رہا۔ اسے گزری باتیں یاد آنے لگیں، وہ اس جہاز کاسب سے کم عمر مسافر تھا۔ ابھی یونیورسٹی سے نکلا ہی تھا کہ امیر کبیر باپ کی اچانک موت نے اسے گم صم کردیا۔ یہ صدمہ ہی ایسا تھا۔ پھر لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس کے والد ہاشم پاشا کی موت غیر فطری ہے۔ وہ ہرلحاظ سے تندرس وتوانا، چاق وچوبندرات کوسویا اورصبح اپنے بستر پرمردہ پایاگیا۔ پندرہ دن پہلے ہی مکمل چیک اپ کی رپورٹس بتارہی تھیں کہ اسے ذرا سا بھی کوئی عارضہ لاحق نہ تھا۔ بس رات کوبستر پر لیٹا تو پھر اٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کچھ نے کہا موت کاتوایک وقت مقرر ہے جب اس کا بلاوا آجائے۔ ہماری کیامجال ہے۔ بیماری تو بس ایک بہانہ بنتی ہے۔ ہاشم کی بہت بڑی تجارتی کمپنی تھی اورمراد پاشا اسکا اکلوتا بیٹا۔ ۔ ۔ دس دن بعد کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران اس کے پاس آئے کہ وہ ایک میٹنگ میں سارے معاملات سے متعارف ہوجائے۔ موت توایک امر الٰہی ہے، حق ہے، کسی کے چلے جانے سے کتنا بڑاخلا بھی پیدا ہوجائے لیکن آخر بھر ہی جاتا ہے، یہی وقت کاتقاضا ہے۔ شیرازی کانام اورکام دونوںاسے ازبر تھے۔ وہ اسکے ابی جان کاگہرادوست اوردست راست تھا۔ یہ درخواست اسی کی طرف سے آئی تھی کہ ہاشم اب اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالے۔ اس نے ایک لفظ کہے بغیر منظور کرلی۔ زندہ تورہناتھا۔ اورزندگی کے لیی کام کرنا لازمی ہے۔ دوسرے دن دس بجے صبح کاوقت مقرر ہوا‘ افسران کاتعارف‘ کمپنی کے اثاثے‘مختلف ممالک میں کمپنی کے دفاتر اورکاروبار ۔ ۔ ۔ وہاں کے ملازموں کے نام، ان کی کل تنخواہوں کے بل اورکس کس بنک میں کیاکیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ میٹنگ کوشروع ہوئے جب چھ گھنٹے ہوگئے توچائے کاوقفہ ہوا۔ چائے کے ساتھ سینڈوچ تھے کیونکہ لنچ کاٹائم بھی گزر چکاتھا۔ وہ چائے پیتے ہوئے سوچ رہاتھا۔میرے ابی جان کس قدر محنت کرتے تھے۔ ۔ ۔ کتنے مصروف رہتے تھے۔ یہی وجہ ہوگی کہ میری امی کے انتقال کے بعد انہیں کبھی دوسری شادی کاخیال نہ آیا، میری دل شکنی کے خیال سے۔ ۔ ۔ یافرصت عنقا تھی۔ باقی کام ہی اتنے زیادہ تھے۔
لیکن کیا اعلیٰ ظرف انسان تھا، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم تک بیٹے کوہرذمہ داری سے بری الذمہ رکھا۔
اسے عام بچوں کی طرح پالا۔ ۔ ۔ شہزادہ نہ بننے دیا۔
بلکہ اسے تویہ بھی احساس نہ تھا کہ ان کاکاروبار اربوں ڈالر تک پہنچاہوا ہے۔ انہوں نے اسے محنت کی عظمت سے روشناس کرایا۔
وہ ہرسال چھٹیوں میں جہاں جہاں ان کے دفاتر تھے، اسے اپنے ساتھ لے جاکر تفریح کے بہانے، وہاں کاآفس، عملہ دیکھتے، اورکام میں تھوڑا وقت ضرور لگاتے۔
اس طرح اس نے مشرق بعید کے علاوہ ساری دنیا دیکھ لی۔ کتابی اور عملی دونوں علم ،تجربے کے ساتھ اسکے ہم رکاب تھے۔ ان میں بہت زیادہ دوستی تونہ تھی۔ ایک احترام ضرور حائل تھا۔ لیکن دونوں باپ بیٹے کے درمیان تکلف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
بس کمی رہی تووقت کی۔ مراد کی سب بڑی دوست اور کمپنی اسکی کتابیں تھیں۔ اسے لوگوں سے زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ بولتا کم تھا لیکن اسکی خاموشی علم وحکمت اوربصیرت سے بھر پور ہوتی۔ جب بولتا توصرف اتنا ۔ ۔ ۔ جتنا ضروری ہو۔
ایسی مصیبت سے زندہ بچ جانے کی حیرت انگیزخوشی آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھوتی گئی۔
جزیرہ خوبصورت، خوابناک، بے مثال موسم۔ ۔ ۔ سر سبز و شاداب۔ ۔ ۔ کپڑے سوکھ گئے تھے۔ اور اب بھوک ستارہی تھی۔ گھومتے گھومتے ایک درخت کے ساتھ سیبوں جیسا ایک پھل دکھائی دیا۔ اس نے توڑ کرچکھا توذائقے میں لاجواب تھا۔ ۔ ۔ ایسا مزہ زندگی میں پہلے کب محسوس کیاتھا۔ ۔ ۔ شاید یہ ایک ہی چیز حاصل تھی، اس لیے بھی مزیدار لگی۔ اب پیاس لگی توپانی کی تلاش تھی۔
جوتوں نے کافی دیر پانی میں رہنے کی وجہ سے اپنی شکل تبدیل کرلی تھی۔ جیسے غربت میں رشتے دار آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یادکھ اورپریشانیاں ہماری صورت پرنشان چھوڑ جاتی ہیں، اس لیے چلنا دشوار ہورہا تھا، کوئی راستہ نہ تھا۔
درخت۔ ۔ ۔ پتھر۔ ۔ ۔ ٹوٹی ہوئی شاخیں، طوفان سے ٹوٹے ہوئے درخت،لٹکتی ہوئی بیلیں۔ ۔ ۔ سامنے ایک پہاڑی دکھائی دی۔ تواس نے سوچا واہ میرے مولا۔ اس جزیرے پرتودنیا کی ہرنعمت موجود ہے۔
کیاکبھی کوئی انسان یہاں پہلے بھی آیا ہوگا۔ ۔ ۔ یہ کہنا مشکل تھا کیونکہ آثار تویہی بتا رہے تھے کہ انسانی قدموں سے یہ جزیرہ ناآشنا ہوگا ۔
اچانک ایک پرندہ اس کے سر کے اوپر سے اڑتا ہوا گزرا تواسے یاد آیا کہ کہیں قریب ہی پانی ہے یااس جزیرے پر آبادی ہے۔ ایک پرندے کی موجودگی اسکی روح کونہال کرگئی کہ وہ تنہا نہیں ہے۔
یہ زندگی کی علامت تھی!
اسے پانی کے بہنے کی آوازیں سنائی دیں تواس سمت کوراستہ بناتا چل دیا۔ وہ پرندہ اس جھرنے پرپانی پینے کے لیے اترا تواسے بھی نظر آگیا۔
پانی پہاڑی کے نیچے سے نکل کربہہ رہاتھا۔ اس کے وجدان سے آواز آئی کہ پرندے کواس لیے بھیجاگیا ہے کہ تمہیں پانی دکھادے۔
سائنس کی بے شمار ایجادات اورسہولیات۔ ۔ ۔ اس وقت صفرنظر آرہی تھیں۔
پانی ٹھنڈا،صاف ستھرااور میٹھا تھا۔
کیا یہی تقدیر ہے؟ وہ منہ ہاتھ دھوتے ہوئے سوچ رہاتھا۔ مجھے سب نے اصرار کرکے زبردستی اس تفریحی سفر پر
بھیجا کہ میں مشرق بعید کی منڈی کاجائزہ لوں اوردنیا کی سیر کرلوں۔ ۔ ۔ کچھ اپناغم غلط کروں۔
اورواپس آکر باقاعدہ طور سے ابی جان کی کرسی سے شرف ملاقات حاصل کروں۔
تجویز اچھی تھی۔ تنہا سفر کرنااسے ہمیشہ فیسی نیٹ Fascinateکرتا تھا۔تاکہ وہ راستے کے نظارے دیکھے۔ قدرت کی نشانیوں پرغور کرسکے اورشائد قدرت کے کسی راز ۔ ۔ ۔ یاحکمت کوسمجھ سکے۔
اسکاایمان پختہ ہو۔ ۔ ۔ نگاہِ بصیرت تیز تر ہو اوراس دنیا کوسفر ہی سمجھے۔ منزل نہ سمجھ بیٹھے۔ اس کو کسی کے اشعار یاد آئے جوبالکل حسب حال تھے
کل کی کس کو خبر جان جاں
زندگی بن گئی امتحاں
میں جزیرے کا تنہا مسافر
ہم نوا نہ کوئی یہاں
کس جگہ لے کے تقدیر آئی
پاسباں نہ کوئی رازداں
کبھی فرصت ہی ملتی نہیں تھی
اب مکیں ہے نہ کوئی مکاں
جس نے طوفان سے ہے بچایا
ساتھ میرے وہی ہے یہاں
وہ کم گوتھا۔مگر اب توصرف خیالات کی فلم چل رہی تھی۔ نہ چھت نہ گھر۔ ۔ ۔ نہ ملازم نہ آسائش، نہ ضرورتیں۔ ۔ ۔ نہ دوست،نہ مارکیٹ نہ بازار، نہ بستر نہ کار ،نہ پانی نہ کھانا ،کہیں آنا نہ جانا۔نہ لوگوں کاہجوم۔ ۔ ۔ اپناپتہ بھی نامعلوم۔ ۔ ۔ یہ کونسا جزیرہ ہے۔ ۔ ۔ اس نے اپناجغرافیہ یاد کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس بے خبری کابھی اپنا مزہ ہے۔
۔ ۔ ۔ آج تک جتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ ۔ ۔ جوکچھ دیکھا یاسیکھا ہے۔ ۔ ۔ یہاں بھلا کیاکام آسکتا ہے۔
اس کے دل سے آواز آئی۔ تقدیر پریقین پختہ ہوگیا۔ وہ چاہے توبستر پر سوئے اچھے بھلے شخص کوبلالے۔ ۔ ۔ وہ چاہے توساراجہاز ڈبو دے اورایک شخص کوجزیرے پرپہنچا دے۔ ۔ ۔ بچالے۔ ۔ ۔ اب آگے ۔ ۔ ۔ بھی وہی مسبب الاسباب ہے ۔ ۔ ۔ یہی توحید ہے نا۔ ۔ ۔ کہ جب اسکے سوا سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں توتم اپنے دین کواس کے لیے خالص کرکے اس سے دعا مانگتے ہو۔ ۔ ۔
یہ پڑھنے کی بات اورتھی۔ اس سے گزرنے کی بات اور ہے۔ کیوں مراد پاشا !یہی نا۔ ۔ ۔ گزرنا کٹھن سہی۔ ۔ ۔ لیکن یقین کامل۔ ۔ ۔
ت ق دی ر۔ ۔ ۔ اس نے ایک ایک کرکے زیرلب یہ حرف دہرائے ۔
دن توچلتے پھرتے گزر گیا۔ شام ۔ ۔ ۔ پھر رات۔ ۔ ۔ بسیرا کہاں کرے۔ سارا دن چلنے کے باوجودجزیرے کادوسرا کنارا نظر نہیں آیا۔
اس نے ایک درخت کی شاخوں کاجائزہ لیا۔ ۔ ۔ کہ وہ کتنی مضبوط تھیں ‘اسکا وزن سہارسکتی تھیں۔
زمین توناہموار تھی پھر کوئی سانپ ،کیڑے مکوڑے یا درندہ۔ ۔ ۔ لیکن درخت نسبتاً محفوظ تھا۔
ہاشم پاشا کوشکار کاشوق تھا‘وہ جب بھی جاتے ،بیٹے کوضرور ساتھ لے جاتے، درخت پرمچان بنا کروہاں رات بسر کرتے۔ یہ اس کے لیے بہت بڑایڈونچر تھا۔ آج یہ اسکے کام آرہا تھا۔
جن لوگوں نے کبھی یہ تجربہ نہ کیا ہو،وہ اسکاتصور بھی نہیں کرسکتے کہ انسان درخت پرکیسے سوسکتا ہے لیکن شکاری لوگ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگلی صبح جب آنکھ کھلی توساراجسم درد کررہا تھا۔ پرسکوں نیلا سمندر، اورکچھ فاصلے پرالقدس کاڈوبا ہوا ڈھانچا نظر آرہاتھا۔
کیامیں زندہ بچ جانے والا آخری مسافر ہوں؟
جب تم اپنی مہذب دنیا میں واپس جائو گے توکیسی کیسی شہرت تمارے قدم چومے گی۔ اخباروں کے ایڈیشن، انٹرویو، ٹی وی، ریڈیو، فلم، کتابیں، مضامین، ٹائی ٹینک کی طرح۔ ۔ ۔ القدس بھی شہرہ آفاق جہاز تھا۔
پہنچو گے تب نا۔ ۔ ۔ ؟
یہ آواز کدھر سے آئی۔اسکے اندر کسی نے قہقہہ لگایا۔ اسے کسی کتاب میں پڑھا ہوا ایک فقرہ یاد آیا:
’’جس بات پرتم یقین رکھتے ہو‘وہ ہوکررہتی ہے۔‘‘
یعنی تم جیسا اللہ کے ساتھ گمان کرو گے، اللہ تعالیٰ ویسا ہی سلوک تمہارے ساتھ کریںگے۔
توعلم کام آیاناں۔ ۔ ۔ علم روشنی ہے ۔وہ اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لے آتا ہے۔
تھوڑی دیر پہلے سوچے ہوئے سوال کاجواب سامنے تھا۔
درخت سے اتر کروہ بیت الخلا کی تلاش میں تھا۔ پھر جھرنے پرجاکرمنہ ہاتھ دھویا۔ گھڑی توبازو پربندھی تھی۔ لیکن پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے اسکا سسٹم بے کار ہوچکاتھا۔ ہاں سورج کی کرنوں نے دن کی بشارت دیدی ۔جواجالا ہے ۔ زندگی اورحرارت کاپیغام ہے۔
ناشتے کاخیال آتے ہی اسے کل والا درخت یاد آگیا۔ ۔ ۔ اب وہ نعمت عظمیٰ لگ رہاتھا، گھڑی جوگزرجاتی ہے، اسکو توانسان صرف یاد کرتا ہے۔ مگر جوآنے والا ہے۔ اسکے متعلق پروگرام ۔ ۔ ۔ لائحہ عمل، کوشش اورجدوجہد۔ ۔ ۔ وہ کبھی تھک کراپنے آپ کوسمندر کی لہروں کے سپرد نہیں کرتا۔ ۔ ۔ شاید یہی اسکی رحمت ہے کہ روح کے اندر ایک امید کاچراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ وہ چراغ، اور اس کانور اسے آگے بڑھنے‘ ہوائوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی ترغیب اورمشکلات کوعبور کرنے کاحوصلہ عطا کرتارہتا ہے۔
اس کی سوچ اس و قت بھی اسکے ہمراہ تھی، اس کی دوست، غمخوار، ساتھی، راز دار، حوصلہ دینے والی اور مشیر کار۔ ۔ ۔ رہنما اورمددگار۔ ۔ ۔ اسے یقین تھا کہ یہ خیالات دل میں اسی ہستی کی طرف سے الہام ہورہے ہیں ،جوہرحال میں انسان کے ظاہر وباطن سے باخبر ہے۔ جوعلیم وخبیر ہے۔ جولطیف و قدیر ہے۔
بس صرف’’ وہ ہی وہ‘‘ اورکچھ بھی نہیں۔یہ نظروں کے سامنے توساری اسکی نشانیاں ہیں، قدرتیں ہیں، نعمتیں ہیں، ہرطرف بکھری ہوئی ہیں، یہ وسیع کائنات ،نیلگوں آسمان، پرسکون سمندر، جوبپھرا۔ ۔ ۔ اوراسکی لہریں، آپے سے باہر ہوئیںتوالقدس۔ ۔ ۔ کیسا مضبوط، کیساحسین۔ ۔ ۔ دنیا کے امراء اورسابق وزیر، بادشاہ، شہزادے، راجے، مہاراجے، ریٹائرڈ جرنیل۔ ۔ ۔ بوڑھے ایکٹر۔ ۔ ۔ اس کے مسافر تھے۔
انتہائی شاندارکمرے، تمام سہولتوں اورآرائشوں سے آراستہ وپیراستہ ، 6سٹار ہوٹل کے کمروں جیسے۔ ۔ ۔
سوئمنگ پول۔شاپنگ سنٹر، لائبریری، سینما، سکوائش کورٹ،SPA،بیوٹی پارلر۔ ۔ ۔ سٹیم باتھ۔ ہرکمرے میں 24گھنٹے TVکی عیاشی اورہرکمرے میں انکی فرمائشی فلم شام کوچھ بجے لگادی جاتی۔
مالش کے لیی حسین ترین اورسمارٹ لڑکیاں موجود ۔ ۔ ۔ ہسپتال موجود۔
ماہر ملاح جنہوں نے چالیس سال سمندر میں گزارے تھے، جب سفید شفاف یونیفارم پررنگ برنگے سٹار سجا کراپنے سفید بالوں اورسمارٹ جسم کے ساتھ کھانے کی ٹرے ہاتھ میں اٹھائے اٹھلاتے، جھومتے اورگاتے کھانا
سرو کرتے تویوں محسوس ہوتا کہ اگر دنیا پرکوئی جنت ہے توبس یہی ہے۔
حسین لڑکیاں، باریک جالی کے سفید لمبے پیراہن زیب تن کرکے شراب کی صراحیاں لیے پھرتیں۔ ۔ ۔ اورجام خالی ہونے سے پہلے بھردیتیں۔
پینے والا تو ان کی آنکھوں میں کھوکے رہ جاتا۔ ۔ ۔
کچھ انہی میں سے مشرقی طرز کارقص پیش کرتیں۔ اس طرح رات کاڈنر کچھ زیادہ ہی رنگین اور طویل ہوجاتا۔
رقص کے بعد موسیقی کی باری آتی۔ اورمشہور زمانہ گیت پیش کئے جاتے،پھر ایک مزاحیہ ایکٹر آتا۔ ۔ ۔ جوون مین شو پیش کرتا۔کھانا بھی ساتھ چلتارہتا، اسی طرح رات کے بارہ بج جاتے۔ نئے شادی شدہ جوڑے جو ہنی مون کے لیے القدس کاانتخاب کرتے، وہ الگ دور کونے والی ٹیبل کاانتخاب کرتے کیونکہ ابھی توانہیں ایک دوسرے کودریافت کرنا تھا لیکن کبھی کبھی ایک نگہ غلط انداز دنیا میں ہونے والی رنگینیوں پربھی ڈال لیتے۔
اس کے بعدآرکسٹراکی دھن بدل جاتی اور مسافروں میں سے جو کپل ڈانس کرناچاہتے، وہ بال روم میں چلے جاتے۔ جنہیں نیند ستاتی، وہ بیڈروم کی راہ لیتے۔
لیکن جاتے جاتے ٹرے میں گرم دودھ، کافی، شہد اور پھولوں کے گلدستے انکے کمروں میں رکھ دیئے جاتے۔ اورساتھ ایک سریلا ساز۔ ۔ ۔ جوکمرے میں موجود افراد کویاد کرواتا کہ ابھی انہوں نے کافی یاشراب کاجام نوش کرنا ہے۔
صبح دروازہ کھلتے ہی پھول اوراخبار ایک ساتھ ملتے اورساتھ ایک حسین میک اپ شدہ ویٹرس بیڈ ٹی کی ٹرالی کمرے میں لے کرآتی اورچائے بناکر رات کے رنگین خواب کاقصہ چھیڑتی، اورآنے والے دن کواسکی تعبیر کاجلوہ دکھا کر رخصت ہوجاتی۔ طلسم ہوشربا،لکھنے والا اگر القدس کودیکھ لیتا، چاہے ایک نظر۔ ۔ ۔ توکئی صفحے اسکی تعریف میں سیاہ کردیتا۔لیکن دیکھنے اورلکھنے میں بڑا فرق ہے۔
باہر سے جب یہ سمندر میں کھڑا ہوتا تو ایک محل کی طرح دکھائی دیتا۔ چاندنی رات میں تاج محل لگتا۔
عام طور پراس میں جوڑے سفر کرتے۔ اکیلے لوگ اکادکا ہی ہوتے۔ مراد پاشا اکیلا تھا لیکن اس نے جلد ہی اپنے جیسے دوتین بیچلر ڈھونڈنکالے توتاش کی بازی جمالی۔
’’القدس‘‘ کے بنانے والوں کادعویٰ تھا کہ اس میں کوئی فنی خرابی ہوہی نہیں سکتی۔اور یہ اتنا مضبوط ہے کہ سمندری طوفان، لہریں اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔اس کے دروازے آٹو میٹک ہیں، جو بند ہوجاتے ہیں اورپانی اندر نہیں جاسکتا۔ شاید ان کایہ غرور ذاتِ باری کوپسند نہیں آیا۔ وہ دنیا کاچکر لگاتے لگاتے برمود ا ٹرائی اینگل کے سمندر میں جا پھنسا،جہاں سے آج تک کوئی جہاز، آب دوز یاہوائی جہاز زندہ سلامت واپس نہیں آیا۔ بلکہ جولوگ ان کی تلاش میں گئے ،ان کی بھی کوئی خبر نہ ملی۔
جہاں تک مراد پاشا کواسکا علم تھا‘ یہ اسکا راستہ نہیں تھا۔
لیکن رات کے اندھیرے میں یہ راستہ بھٹک گیا۔ ۔ ۔ لیکن اب توصرف اندازہ یاسوچ تھی، تحقیق کون کرے گا، یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا۔ ۔ ۔ کہ بس پلک جھپکتے میں۔ ۔ ۔
قیامت کامعاملہ بھی توایسے ہی ہوگا۔ لیکن جولوگ جہاز میں تھے ان کے لیے توقیامت آچکی۔ ع
قیامت اور کیا ہوگی قیامت دیکھ لی میں نے
آنے والے دنوں کے خواب۔ ۔ ۔
بے تحاشہ دولت کے ساتھ ہرآسائش خریدسکنے کی عیاش تسکین ، ایک گھر محبت اورخاندان کی تمنا۔ ۔ ۔
جیون ساتھی کی تلاش کاسفر تحقیق وجستجو۔ ۔
۔ نئے افق کی تلاش۔ ۔ ۔ تھکے ہوئے ذہنوں کیلئے ریلیک سیشن (relaxation) یہ سب کچھ توابی جان کاتھا۔ ۔ ۔ ان کی سوچ ۔انتظامی صلاحیتیں ،شبانہ روز کی محنت، تجارت کے راز۔
سب کوفنا کے گھاٹ اترنا ہے ایک دن
اس میں اتر کے پھر سے ابھرناہے ایک دن
وہ نہ رہے ۔ ۔ ۔ امی چلی گئیں۔ توآج۔ ۔ ۔ کل مجھے بھی توجانا ہے۔ ۔ ۔ یہ حادثہ۔ ۔ ۔ یہ معجزانہ طور پر میرا بچ جانا۔ ۔ ۔ ایک چانس دیاگیا ہے مجھے کہ اب میں نے کونسا پہلو مدنظر رکھنا ہے ،کس شاہراہ پرجانا ہے۔
اس کانام کیا ہے۔
اسے سورۃ العصر یاد آئی، جواس نے تیسری جماعت میں حفظ کی تھی (ترجمہ):
’’زمانے کی قسم ہے ،بے شک انسان نقصان ،خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے،
جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے
اورایک دوسرے کوحق اورصبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘
وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ اورایک ایک لفظ پرغور کرنے لگا۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیاکہ انسان کیوں خسارے میں ہے؟ آخر اس نے کونسا گھاٹے کاسودا کیا ہے یاکرنا ہے، یاکر رہا ہے، کیوں کہ یہ جملہ توسارے زمانے پرحاوی ہے۔ حضرت آدمi نے درخت کاپھل چکھا تویہ نقصان ہوا کہ لباس اتر گئے اورجنت سے نکالے گئے۔
اسے غالب کاشعر یاد آگیا
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے یہ شعر بھی کورس کی کتاب میں پڑھا تھا۔
اور تو یاد نہیں آتاکہ یہ واقعہ کبھی سنا ہویاپڑھا ہو۔
یہ صرف اُن کاخسارہ تھا۔یاکل انسانیت کا۔ ۔ ۔
اگر حضرت آدم iنہ آتے تویہ دنیا کیسے آگے چلتی۔ ۔ ۔ اتنے لوگ۔ ۔ ۔ آبادیاں، شہر، ترقی، علم ، کتابیں، تجارت، سفر، مہم جوئی، اقتدار،اعتبار، انتظار، افکار، ایجادات ،فرمودات، کمالات، خرافات۔ ۔ ۔ مناجات۔ ۔ ۔ یعنی دعا، مشکلات، آفات۔ اثرات، منزل کی تلاش۔ ۔ ۔ ذریعہ معاش، نیچے سمندر اوپر آکاش۔ ۔ ۔ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد۔ ۔ ۔ کاش۔ ۔ ۔
آخر کون سی منزل ہے جوانسان تمام عمر تلاش کرتا رہتا ہے۔ اگر اس جہاز میں اتنے انسان ڈوب گئے ، لقمۂ اجل بن گئے۔
میں بھی ان میں سے ایک ۔ ۔ ۔ تویہ منزل ہے۔ ۔ ۔
یہ توموت ہے۔ گڈ بائے ٹوایوری تھنگ۔ ۔ ۔ بے شک تم چاہو نہ چاہو۔
کب آجائے۔ ۔ ۔ کہاں آجائے۔ کوئی پاس ہو نہ ہو، اس کو کیا سروکار ۔ ۔ ۔ کسی آنکھ سے آنسو نکلے نہ نکلے۔
پھرغالب کی یاد آگئی۔
ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
وہ سمجھا کرتاتھاکہ بس یہ شاعر بھی ایک نرالی چیز ہوتے ہیں، ایسے مضامین باندھتے ہیں، وہ بھی فرض کرکے، مثال دے کر،جوشاید کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتے لیکن یہ کیسا سچ ہے۔ نہ کسی کاجنازہ اٹھا، نہ مزاربنا، نہ یادگار رہی ۔
جن لوگوں نے بہت ترقی کرلی۔ ۔ ۔ دنیا فتح کرلی۔ ۔ ۔ علم کی انتہاکوپہنچے۔ ۔ ۔ بے شمار دولت اکٹھی کرلی۔ کوئی بھی چیز انہیں موت سے نہ بچاسکی۔ ۔ ۔
کیا پہلے لوگوں نے موت کے بارے میں یعنی اس سے بچنے کے بارے میں سوچا ہوگا۔
اہرام مصر سے نکلنے والی ممیاں۔ ۔ ۔ اسکا ثبوت۔ ۔ ۔ لیکن وہ تو انہوں نے محض مردہ جسم کومحفوظ کرنے کا طریقہ ایجاد کیاتھا۔
روح۔ ۔ ۔ وہ تواُن کے قابو نہ آسکی۔ ۔ ۔
تومراد پاشا اصل زندگی روح سے ہے ،جب وہ نکل گئی۔ توختم۔ یہ روح کاسفر ہے جسکانام لائف ہے۔
کیااسکی کھوج۔ ۔ ۔ لگائی جاسکتی ہے۔ ۔ ۔
یہ کہاں سے آتی ہے اورنکلنے کے بعد کدھر جاتی ہے۔
اورآخر یہ کیاشے ہے، ٹھوس ہے مائع ہے یاگیس ہے۔
سائنس ۔ ۔ ۔ توخودخاموش ہے۔
ٹھوس توجسم ہوا۔ ۔ ۔ مائع اس میں گردش کرتا ہواخون ہے۔اسی میں گیس بھی ہوتی ہے۔
توپھر روح کچھ اورہے۔
اسے ٹی،وی کاایک مذاکرہ یاد آیا۔ وہ اپناپسندیدہ میچ دیکھنا چاہتا تھا اورجلدی جلدی ریموٹ کنٹرول سے چینل بدل رہاتھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ کال توکٹ گئی لیکن وہاں ٹی وی پر کوئی بوڑھا مسلمان فلاسفر کہہ رہا ہے۔ ۔ ۔ روح امرربی ہے۔ ۔ ۔ ہمارے رب کاحکم ہے۔
روز ازل فرما یاگیا کہ میں مٹی سے ایک مخلوق بنانے والا ہوں۔ ۔ ۔ جب بنالوں اوراس میں اپنی روح پھونک دوں توتم سجدے میں گرجانا۔ سب نے تعمیل کی لیکن ابلیس نافرمانوں میں سے تھا۔ اس نے تکبر کیا کہ ’’مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے اوراسکو مٹی سے۔ ۔ ۔ میں اس سے بہتر ہوں۔‘‘
اس کے بعد اس نے چینل بدل دیا۔
حیرت کی بات ہے کہ یہ جملے اتنے واضح طور پراس کے ذہن میں کیسے رہ گئے۔ ۔ ۔ اچھا تویہ پہلا سجدہ تھا جوآدم کی برتری کوباقی مخلوقات نے تسلیم کیا۔
اور پھر اب ہم پانچ دفعہ سجدہ کر نے کے مجاز ہیں لیکن ہم۔ ۔ ۔ تو وہ سجدہ بھی بھول گئے۔
اوراپنے مقام کوبھلا دیا۔ اوریہ پانچ سجدے بھی غفلت کی نذر ہوگئے۔
ایک وہ رتبہ تھا جوباقی تخلیقات میں ہمارا تھا
دوسرا وہ درجہ تھا جوخالق کی بارگاہ میں ہمارا تھا۔
دونوں سے گئے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مراد پاشا۔ ۔ ۔
یہ پہلے کبھی کیوں خیال نہ آیا۔یادکرو آخری نماز کب پڑھی تھی۔
شاید عید کی نماز تھی۔ ۔ ۔ ؟یاد نہیں۔
شرمندگی کی ایک لہر اسکے رگ وپے میں دوڑ گئی۔
تو اسے کب سے بھلائے بیٹھا ہے؟
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetuer adipiscing elit. Quisque congue tristique eros. Nulla facilisi. Quisque sem mauris, ullamcorper ac, gravida id, mattis id, sapien. Nullam adipiscing enim dapibus felis. Fusce a nisi in odio pulvinar fringilla. Nunc blandit interdum metus. Duis leo nunc, sollicitudin ut, fermentum congue, pharetra eu, massa. Suspendisse potenti. Morbi commodo mauris. Ut at pede. Ut id nisi. Donec scelerisque urna quis ligula. Praesent est. Vestibulum scelerisque. Curabitur quam. Fusce rhoncus pellentesque ipsum. Aenean venenatis metus ac quam. Maecenas lacus lacus, sagittis vitae, congue at, euismod eu, urna. Maecenas vitae purus. Praesent eros lectus, porta et, semper nec, molestie eget, tortor.