اسپیشل سروسز
بہشت کا راستہ
قارئین کے نام
’’بہشت کاراستہ‘‘
آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔الحمدللہ میرایہ ناول لکھنے کاکوئی باقاعدہ پروگرام یاارادہ نہ تھا ،یونہی ایک دن بیٹھے بیٹھے مرد اورعور ت کے ازلی رشتے کے بارے میں سوچتے ہوئے چند سطریں لکھیں اور پھر بھول گئی۔ کافی دنوں بعداس کاپی پرنظرپڑی تووہ اس قدر خوبصورت تحریرتھی کہ اس سے نظر یں چرانا مشکل ہوگیا۔ یہ تعلق خاندان کی بنیاد بنتا ہے اور خاندانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اسی سے قومیں وجود میں آتی ہیں ۔اگراس بنیادی یونٹ میں خرابی نہ ہو یااس کی اصلاح ہوجائے۔ تواچھائی اورسکون کوبڑے کینوس میں پھیلایاجاسکتا ہے۔ یہی اس کابنیادی مقصد ہے۔ دنیا میں اگر اس راستے پرچلا جائے توزندگی جنت بن سکتی ہے اوریہی نیک عمل بہشت کی ضمانت بنتا ہے۔ اس کانام بھی اس ابتدائی تحریر سے لے لیا۔ پھرکیاہواکہ میری ہر آنے والی کتاب کے بیک پیج پراس کانام شائع ہوتا ہے۔ اس کومکمل کرنے کے ارادے اوروعدوں کے باوجود مریضوں نے فرصت نہ دی۔ 2007ء میں آسٹریلیا آناپڑا، یہاں فرصت تو میسرآگئی۔لیکن ماحول، دوست،گھر ،آب وہوا، معاشرت، نظارے، ساتھی، سبھی کچھ نیا تھا۔ اس ماحول سے مانوس ہونے میں چھ ماہ لگ گئے۔ عباس اختر صاحب کی طر ف سے مسلسل یاد دہانی آتی رہی کہ آپ’’بہشت کاراستہ‘‘ کب بھجوا رہی ہیں۔ آج پھران کی ای میل پڑھی ،لکھاتھا ۔لوگ آپ کی اس آنے والی کتاب کے منتظر ہیں اوربہت پوچھتے ہیں کیاجواب دوں۔ ۔ ۔ ؟یہ کتاب لکھوانے کاان کا بہت ہی غیرمحسوس طریقہ تھا۔ میں نے اللہ پاک سے خصوصی دعا کی کہ میری مددفرما۔
پھران کافون آیااورانہوں نے تجویز دی کہ اگر یہ ناول قسط وار شائع کرنا شروع کردیں ’’تواگلے ماہ لامحالہ‘‘ آپ کواگلی قسط تحریرکرناہوگی۔ یہ طریقہ کارگرثابت ہوا۔ اقساط جنوری سے لے کرجولائی تک شائع ہوئیں توپھرانہوں نے کہاکہ اب ایک دوماہ ناول ہی کتابی صورت میں آجائیگا۔چنانچہ گیارہ نومبر2009ء یہ مکمل ہوگیا۔ اب یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میںہے۔ میں نے اس سے پہلے اتناطویل باقاعدہ ناول کوئی نہیں لکھا۔ سفرنامے،کہانیاں، افسانے ، مضامین لکھے تھے جنہیں آپ نے سندقبولیت عطاکی۔ میں آپ کی محبتوں کی مقروض ہوں اورمیری دعائوں میں آپ حصہ دار ہیں۔ اس ناول میں آپ کو جابجااشعار بھی دکھائی دینگے۔ شعر کہنے اور شعر ہونے میں بہت فرق ہے۔ میں نے قصداً کبھی شاعری نہیں کی ۔پہلاشعر کہاتو میں آٹھویں کلاس میں تھی اورشاعری کے مفہوم سے ناآشنا۔ ۔ ۔ بس قافیہ ردیف کی ظاہری خوبصورتی دل کولبھاتی، اورردھم اورموسیقی بھی اس کی وجہ تھی۔ مفہوم تک رسائی نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ذہن وفکر کے دریچے واہوتے گئے اورجب شعرکی باطنی خوبیوں کاادراک ہواتو قلم مزید رواں ہوگیا۔ نہ کبھی سنانے کی خواہش نے مجھے ستایا، نہ اسے شائع کرنے کی آرزودِل میں پیداہوئی۔ میری شاعری میری ذات کاوہ حصہ ہے جس پر زندگی کاکرب اوراسکی حقیقتیں پل پل عیاں ہوتی ہیں۔ یہ میری رازداربھی ہے اوردوست بھی۔ اس نے میرے دکھ بانٹے ۔جوذاتی بھی تھے اورآفاقی بھی۔ میرے غموں کوگلے سے لگایا۔ زندگی کی تلخیوں کواپنے دامن میں سموکر مجھے شعور کی پختگی،مشاہدے کی آنکھ اورتجربے کی قدروقیمت سے روشناس کرایا۔